اسلامی اقدار اور قومی ثقافت کی دھجیاں اڑاتی غیرملکی (اکیلی) خواتین!

گلگت بلتستان میں اس وقت ملکی اورغیرملکی سیاحوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے، ان سیاحوں میں بعض ایسی (اکیلی) خواتین بھی ہیں؛ جو مقامی جوانوں کے ساتھ قریہ قریہ، گاؤں گاؤں، گھومتی نظرآرہی ہیں۔
تحریر: ڈاکٹرغلام مرتضی جعفری
دشمن یہ جان چکا ہے کہ ہم براہ راست اسلامی اصولوں اور قوانین کو چیلنج نہیں کرسکتے!، ہماری منطق اسلامی منطق کے سامنے جوابدہ نہیں ہے؛ اس کے علاوہ وہ یہ بھی جان چکے ہیں کہ جب براہ راست اسلام کے خلاف کوئی بات کریں گے تو مسلمانوں کا جواب بھی بڑا ہی سخت اور دندان شکن ہوگا؛ اس لئے دشمن نے رویہ بدلا ہے۔ مسلمانوں کے دلوں سے روحانی جذبات کوختم کرکے ہی اسلام کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ مسلمان معاشروں خصوصا اسلامی جمہوریہ پاکستان کےمختلف علاقے خاص کر گلگت بلتستان کے متدین اور دیندار معاشرے کو سکیولر اور بے دین بنانے کے لئے مختلف حربے استعمال کیے جارہے ہیں؛ ان میں سے ایک سیاحوں کے روپ میں اسلام مخالف مبلغین کا اس علاقے کی طرف رخ کرنا بھی ہے؛ جن میں سرفہرست وہ خواتین ہیں جو یکہ وتنہا بغیرکسی ہمراہ مرد کے گلگت بلتستان میں سیر کرتی نظرآرہی ہیں۔
کچھ مقامی نادان نوجوان ان اکیلی خواتین کو بڑے فخرکے ساتھ نہ تنہا اپنے گاؤں، محلے میں لیکرجاتے ہیں؛ بلکہ ان کےساتھ ویڈیوز اور سیلفیاں بنا کر سوشلستان میں نشربھی کرتے ہیں!!!۔
اس مختصرمقالے میں ایسی اکیلی خواتین کو گاؤں گاؤں، پھیرانے کےمضرات اور نقصانات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
دین اسلام سیروسیاحت کا مخالف نہیں؛ بلکہ سیرو سیاحت کا حکم دیتا ہے: «قُل سيروا فِي الأَرضِ فَانظُروا كَيفَ كانَ عاقِبَةُ المُجرِمينَ ؛ فرما دیجئے: تم زمین میں سیر و سیاحت کرو پھردیکھو مجرموں کا انجام کیسا ہوا»۔
«قُل سيروا فِي الأَرضِ ثُمَّ انظُروا كَيفَ كانَ عاقِبَةُ المُكَذِّبينَ ؛ فرمادیجئے کہ تم زمین پر چلو پھرو، پھر (نگاہِ عبرت سے) دیکھو کہ (حق کو) جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا»۔
اسلامی ثقافت اور معاشرے کی بنیاد نظام خانوادگی پر منحصر ہے، اور خانوادگی نظام کا قیام، اس کی پائیداری، باہمی الفت و محبت اور اسلامی قوانین کی پاسداری کے بغیرممکن نہیں!؛ اس لیے خداوند متعال صرف ان (جنس مخالف)افراد سے اجتماعی روابط اور محبت و الفت کے اظہار کا حکم دیتا ہے؛ جن کے ساتھ حسبی یا نسبی رشتہ ہو؛ یعنی خونی رشتہ، رضاعت (دودھ پلانے) یا مصاہرت (شادی بیاہ) کی وجہ سے۔
اگر مرد و عورت کے مابین حسب و نسب کے اعتبار سے کوئی رشتہ نہ ہو تو اسلام انہیں ایک دوسرے کے لیے نامَحرَم یا غیرمَحرَم قرار دیتا ہے اور غیرضروری ملاقاتوں اور باتوں سے روکتا ہے؛ کیونکہ اسلام دینِ فطرت ہے جو انسانوں میں موجود جذبہ محبت کا نہ صرف معترف ہے؛ بلکہ اس جذبے کی تسکین کے لیے انس، محبت، دوستی اور تعلقات کے طور طریقے؛ یعنی رشتوں کی پاکیزہ و شفاف بنیادیں بھی فراہم کرتا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ دین اسلام غیرمحرم مرد اور عورت کے درمیان نکاح کے علاوہ کسی قسم کے مراسم اور محبت کا کوئی تصور قبول نہیں کرتا۔ اسلام کے طرزِ معاشرت میں بوقتِ ضرورت غیر محرم سے بات کرنے میں بھی انتہائی محتاط انداز اپنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «يا نِساءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذي في‏ قَلْبِهِ مَرَضٌ وَ قُلْنَ قَوْلاً مَعْرُوفاً ؛اے اَزواجِ پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو، اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (مَردوں سے حسبِ ضرورت) بات کرنے میں نرم لہجہ اختیار نہ کرنا کہ جس کے دل میں (نِفاق کی) بیماری ہے (کہیں) وہ لالچ کرنے لگے اور (ہمیشہ) شک اور لچک سے محفوظ بات کرنا»۔
سب سے پہلے بحیثیت مسلمان ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ایک مسلمان جوان مرد کسی غیرملکی اکیلی خاتون کے ساتھ تفریحی مقامات کی سیرکرسکتا ہے کہ نہیں؟ یقینا اسلامی قانون، اس بات کی ہرگزاجازت نہیں دیتا ہے؛ لہذا ایسے جوان جو غیرملکی اکیلی خواتین کےساتھ پھررہے ہیں وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوکر اپنی آخرت خراب کررہے ہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس طرح غیرملکی یکہ وتنہا جوان لڑکیوں کو گاؤں گاؤں پھیرانے سے ہمارے معاشرے پرکیا منفی اثرات مترتب ہوسکتے ہیں؟ کوئی باشعور انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا ہے کہ اس سے ہمارے معاشرےپر کوئی اثرنہیں پڑےگا۔!
برے اثرات
معاشرے کی جوان لڑکیوں میں اکیلے گھومنے کا رجحان خواستہ یا ناخواستہ طور پرپڑے گا، جیسے کہ گزشتہ کئی سالوں سے اس رجحان میں اضافہ ہی دیکھنے میں آرہاہے۔ جوان لڑکیاں سیرو تفریح کے عنوان سے ایک شہر سے دوسرے کا سفر بغیرکسی خوف وخطر کے کرتی نظر آرہی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ رجحان کہاں سے آیا؟؟ آپ شک نہ کریں! ان میں اہم کردار انہیں غیرملکی اکیلی خواتین کا ہے جو بیرون ملک سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ماحول کو خراب کرنے پہنچ جاتی ہیں۔
بے پردگی
ایسی لڑکیوں کے اسلامی ماحول میں آزادانہ جوان لڑکوں کے ساتھ گھومنے سے معاشرے میں بےپردگی بڑهے گی، ناسمجھ لڑکیاں ان کو اپنےلئے نمونہ قرار دے کرحجاب کو ایک دقیانوسی طرز زندگی سمجھیں گی۔ جیسے کہ بعض اوقات سوشلستان میں بعض خواتین برملا اظہار کرتے ہوئے نظر آتی ہیں کہ پردے میں کیا رکھا ہے؟ دل میں ایمان ہونا چاہئے!!!۔
گھروں سے بھاگنا
ان اکیلی جوان لڑکیوں کے ساتھ گھومنے والے جوانوں سے میرا سوال ہے کہ کیا آپ اس بات پر راضی ہوجائیں گے کہ کل آپ کی بہن یا بیٹی بھی اکیلی کسی غیرمرد کے ساتھ سیرتفریح کے نکلے؟!۔ اگرتھوڑی سے بھی غیرت ہوتو جواب منفی ہی ہوگا۔
اس وقت کتنی لڑکیاں ہیں جو بھاگ کرشادیاں کرتی ہیں؟ نظام خانودگی پرنظررکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کی کل آبادی کے تقریبا 6 سے 7 فیصد لڑکیاں اور لڑکے والدین کی اجازت کے بغیر گھر سے بھاگ کر شادی کرتے ہیں؛ بھاگ کر شادی کرنے کا رجحان سب سے زیادہ 15 سے 19 سال کے نوجوانوں میں دیکھا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لاکھوں نوجوان گھر سے بھاگ کر شادی کرتے ہیں ۔ آخر بھاگنے کے وجوہات کیا ہیں؟؟؟ بغیروجہ کے ایسا ممکن نہیں ہے۔ جی؛ وجوہات مختلف ہیں، ان میں سے ایک مغربی ثقافتی یلغار ہے، جوان خواتین کا مسلمان جوانوں کے ساتھ آزادانہ گھومنا ہے۔
ریپ کا خطرہ
خواتین کے حقوق پر نظررکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سیرو تفریح کرنے والی خواتین بدترین جنسی زیادتی کا شکار رہتی ہیں، صرف بھارت میں ہربیس منٹ میں ایک خاتون جنسی زیادتی کا شکار ہوجاتی ہے۔ متعدد بار دیکھا گیا ہے کہ کئی خواتین اجتماعی زیادتی کا شکار بھی ہوئیں ۔ برازیل میں ریپ اور جنسی زیادتی میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا، گزشتہ چند سالوں میں ۱۷۵ فیصد جنسی زیادتی اور ریپ کے واقعات پیش آئے؛ یہی حال دنیا کے اکثرممالک کا ہے، ترکی، مصر، مراکش، نیپال، نیوزی لینڈ، کینا، آمریکا۔۔۔ دیگرملکوں میں روز بروز ہراساں کرنے اور جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔
بدنامی
غیرملکی خواتین کے ساتھ گھومنے والے جوانوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ آخراسی معاشرے میں زندگی گزارنی ہے، اس طرح کے حرکات سے معاشرے میں بدنام ہوں گے۔ معاشرے کا کوئی غیرتمند فرد ان کو پسند نہیں کرےگا، ہرایک کے نظروں سے گرکر ذلت و رسوائی کی زندگی بسرکرنے پرمجبور ہونگے۔ یہاں تک کہ اپنے گھروالے بھی ان پر اعتبار نہیں کریںگے۔
طلاق
دنیا بھرمیں طلاق کی وجوہات میں ایک، شریک حیات سے خیانت کرنا ہے، جب خاتون دیکھتی ہے کہ مرد کے نامحرم کے ساتھ روابط ہیں، تو وہ اس مرد کو اپنا نہیں سمجھتی، کسی غیرکا سمجھنے لگتی ہے اور اس کے دل سے مرد کی محبت مکمل طور پر ختم ہوجاتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ بہت ساری خواتین طلاق کا مطالبہ کرتی ہیں اور ان کا پھلتا پھولتا گھر اجڑجاتا ہے۔
ملک سے نفرت
جب جوان نسل ایسے لادین افراد سے متاثر ہوگی تو، ناخواستہ طور پر ملک دشمن بن جائےگی، جیسے کہ سماجی ویب سائٹ پر ہزاروں ایسے جوان ملیں گے جو برملا، ملک سے نفرت کا اظہار کرتےہیں۔ ان کو پتہ بھی نہیں چلتا ہے کہ آخر ان کے دلوں میں یہ نفرت کہاں سے آئی ہے؟؟؟۔
اسلام سے دوری
بہت سارے جوان براہ راست اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی اس لئے نہیں کرتے ہیں کہ ان کو معلوم ہے؛ اگر اسلام کے خلاف کچھ کہیں گے تو سخت جواب ملے گا؛ اسی لئے وہ علما کے خلاف بھرپور انداز میں منفی تبلیغات کرتےہیں۔ جب جوان دین پہنچانے والوں سے ہی نفرت کریں گے تو ۔۔۔۔۔ پھرکچھ نہیں بچے گا۔!
اولاد پر منفی اثرات
جس گھرمیں باپ بے راہ روی کا شکار ہو، اس کی اولاد ناخواستہ طور پر بے راہ روی کا شکار ہوجاتی ہے۔ جب بیٹا دیکھتا ہے کہ باپ نامحرم لڑکیوں کے ساتھ گھوم رہا ہے تو بیٹا بھی اسی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرےگا۔ اگر اس کو کوئی غیرملکی لڑکی نہ ملے تو گاؤں کی لڑکیوں کو بہکانے کی کوشش کرےگا۔
ناامنی
کسی بھی معاشرے کی ترقی میں خواتین کا اہم کردار ہوتا ہے اور معاشرے میں خواتین مثبت کردار تب ادا کرسکتیں ہیں؛ جب انہیں ناامنی کا خوف نہ ہو، عزت کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ جب معاشرے میں خواتین کی عزت پامال ہونے کا خطرہ ہوتو وہ گھرتک محدود رہے گی، حتی درسگاہ، یونیورسٹی جانے سے بھی گھبرائیں گی۔
اس طرح کی بے راہ روی سے علاقےمیں ناامنی پھیلے گی، دیندار اور پردہ دار خواتین کو گھروں سے باہرنکلنا مشکل ہوجائےگا۔
نامحرم خواتین سے رابطہ
اہل علم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ “ضرورت” کے تحت نامحرم خواتین سے رابط یا مکالمہ ممنوع نہیں ہے، بشرطیکہ اس رابطہ یا مکالمہ سے کوئی اور شرعی قوانین پامال نہ ہوتے ہوں۔
اسلام میں خواتین کا مرتبہ
خاتون معاشرے کی بنیادی اکائی ہے؛ معاشرے کی رنگارنگی اور تنوع میں خاتون کا کلیدی کردار ہےاسی اہمیت کے پیش نظر قرآن نے جا بجا مرد کے ساتھ ساتھ عورت کی عظمت اور اہمیت کو اجاگر کیا ہےاور عورت کے وجود کو معاشرے کی تشکیل، تعمیرنو اور بقا کا ضامن قرار دیا ہے؛لہذا خاتون کی اہمیت کسی لحاظ سے بھی مرد سے کم نہیں؛ بلکہ بسا اوقات شاید کہیں زیادہ ہوتی ہے؛ کیونکہ ایک مرد علم حاصل کر کے زیادہ سے زیادہ اپنے گھر کے لیے فائدہ دے سکتا ہے؛ جبکہ عورت کی تعلیم کے اثرات گھر اور گھرانے سے بڑھ کر شہر اور معاشرے تک پھیل جاتے ہیں ۔ایک بہترین عورت ہی انسانی تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھ سکتی ہے ۔
تجاویز اور گزارشات
کسی بھی غیرملکی اکیلی خاتون کو خطے میں داخل ہونے سے روکا جائے؛ اگرحکومت اس بارے تعاون نہیں کررہی ہےتو علاقے کے علما اور بزرگان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس قسم کی اکیلی خواتین کے مقامی جوانوں کے ساتھ سیرو سیاحت خطے پرمنفی اثرات سے عوام کو آگاہ کریں؛
امربہ معروف نہی از منکر
امربالمعروف اور نہی از منکر ہرعاقل انسان پر فرض ہے؛ لہذا غیرملکی خواتین کو لے کرگھومنے والے جوانوں کو سمجھایا جائے اور اس قسم کے حرکات کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
گاؤں میں داخلے پرپابندی
حکومتی اور عوامی انتظامیہ کو چاہئے کہ کسی بھی صورت اکیلی خواتین کو گاؤں میں داخل ہونے سے روکیں، اگرخدا نخواستہ ان غیرملکی خواتین کے ساتھ کوئی غیراخلاقی حادثہ پیش آنے کی صورت میں معاشرے پر برے اثرات کے ساتھ ساتھ دنیا بھرمیں خطے اور ملک کی بدنامی بھی ہوگی۔