حج ابراہیمی کا امت اسلامیہ کی آزادی میں کردار
امام خمینی (رح) کے نقطہ نظر سے حج ایک ایسی عبادت ہے جس میں رب کعبہ کی عبادت، تہذیب اور تزکیہ نفس کےعلاوہ شرک، کفر اور خواہشات نفسانی سے لڑنا ہے۔ یہ توحیدی مناسک نہایت خلوص کے ساتھ انجام دیے جائیں تو انسان ہرقسم کی پستیوں اور سیاسی انحرافات سے نجات پا سکتا ہے۔ (امام خمینی، صحيفه امام، ج19، ص 29 و 334).
تحریر: حافظ نجفی
ترجمہ: ڈاکٹرغلام مرتضی جعفری
اس مضمون میں امت اسلامیہ کی آزادی میں حج کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
انسانی زندگی فردی، سماجی، سیاسی اور بعض دیگر وابستگیوں کی زنجیروں میں گرفتار نظرآتی ہے؛ جیسے کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: «زُيِّنَ لِلنّٰاسِ حُبُّ اَلشَّهَوٰاتِ مِنَ اَلنِّسٰاءِ وَ اَلْبَنِينَ وَ اَلْقَنٰاطِيرِ اَلْمُقَنْطَرَةِ مِنَ اَلذَّهَبِ وَ اَلْفِضَّةِ وَ اَلْخَيْلِ اَلْمُسَوَّمَةِ وَ اَلْأَنْعٰامِ وَ اَلْحَرْثِ ذٰلِكَ مَتٰاعُ اَلْحَيٰاةِ اَلدُّنْيٰا وَ اَللّٰهُ عِنْدَهُ حُسْنُ اَلْمَآبِ» (آل عمران 14)؛ «لوگوں کے لیے خواہشات نفس کی رغبت مثلاً عورتیں، بیٹے، سونے اور چاندی کے ڈھیر لگے خزانے، عمدہ گھوڑے، مویشی اور کھیتی زیب و زینت بنا دی گئی ہیں، یہ سب دنیاوی زندگی کے سامان ہیں اور اچھا انجام تو اللہ ہی کے پاس ہے»۔
دنیوی مال و منات سے وابستہ، مغرور، متکبر، عیش و عشرت کے طلبگار افراد اللہ کے حضور سرکشی کرتے ہیں ان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالی نے انبیا علیہم السلام کو مبعوث فرمایا تو بدمست اور متکبر لوگ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے آبا و اجداد کو ایک رسم پر پایا اور ہمیں ان کے رسموں پر عمل کرنا چاہیے۔ «مٰا أَرْسَلْنٰا مِنْ قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلاّٰ قٰالَ مُتْرَفُوهٰا إِنّٰا وَجَدْنٰا آبٰاءَنٰا عَلىٰ أُمَّةٍ وَ إِنّٰا عَلىٰ آثٰارِهِمْ مُقْتَدُونَ»(زخرف 23)؛ « اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کسی بستی کی طرف کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں بھیجا؛ مگر یہ کہ وہاں کے عیش پرستوں نے کہا: ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک رسم پر پایا اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں». متکبر، جابر اور مطلق العنان افراد جو ہمیشہ دوسروں کو ذلیل اور کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ان سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ «وَلاٰ تَرْكَنُوا إِلَى اَلَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ اَلنّٰارُ وَ مٰا لَكُمْ مِنْ دُونِ اَللّٰهِ مِنْ أَوْلِيٰاءَ ثُمَّ لاٰ تُنْصَرُونَ» (هود، 113)؛«اور جنہوں نے ظلم کیا ہے ان پرتکیہ نہ کرنا ورنہ تمہیں جہنم کی آگ چھو لے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی سرپرست نہ ہوگا پھر تمہاری کوئی مدد بھی نہیں کی جائے گی»۔ اسلامی تعلیمات اور انسانی عقل یہ حکم دیتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو ان غلامانہ زنجیروں سے آزاد کرے۔ جیسے کہ مولائے کائنات امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں:«لَا تَكُنْ عَبْدَ غَيْرِكَ وَ قَدْ جَعَلَكَ اللَّهُ حُرّا…»(شریف رضی، نهج البلاغه، نامه 31)؛«کسی دوسرے کا غلام مت بن بنو؛ اللہ تعالی نے تمہیں آزاد خلق کیا ہے۔» حجاج کرام، حج کے روحانی مناسک کے دوران ہرقسم کی نفسانی خواہشات کی قید و بند سے آزاد ہوکرخالقِ کائنات کی بارگاہ میں مہمان ہوتےہیں اور یہ نفسانی اور شیطانی خواہشات سے دائمی آزادی کی طرف اہم قدم ہے۔
خانہ کعبہ کی صفات میں سے ایک صفت«عتیق» ہے«اَلْبَيْتِ اَلْعَتِيقِ…»حج 29 و 33) ؛ امام باقرعلیہ السلام اس آیت کی تفسیرمیں فرماتے ہیں: پوری زندگی میں آزاد رہنا، کسی کا غلام نہ بننا۔»؛ راوی کہتا ہے کہ میں نے امام باقرعلیہ السلام سےعرض کیا:«لِمَ سُمِّيَ الْبَيْتُ الْعَتِيقَ قَالَ هُوَ بَيْتٌ حُرٌّعَتِيقٌ مِنَ النَّاسِ لَمْ يَمْلِكْهُ أَحَدٌ»،(کلینی، الکافی: 4 ص 189)؛ کعبہ کو بیت عتیق کیوں کہاجاتا ہے؟امام نےفرمایا: کیونکہ وہ آزاد ہے، کسی کی ملکیت نہیں ہے»؛ لہذا کعبے کا غیرمملوک ہونا؛یعنی کسی کی ملکیت میں نہ ہونا، انسانوں کو ہر قسم کی غلامی سے آزادی دلوانے کےلئے الھام بخش ہے۔ اس لیے حجاج کرام کو چاہیے کہ وہ اس آزاد بیت کا طواف کرکے اپنے اندر سے ہرقسم کی غلامانہ صفات کا خاتمہ کریں اور علمی اور عملی جہالت کی قید و بند سے نکل کر ظالموں اور استعماری طاقتوں کی قید سے بھی آزادی کا سبق سیکھیں۔
اہم نمونے:
1- اگرچہ تمام مخلوقات اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہی مستفید ہوتی ہیں، لیکن الہی ضیافت ایک ایسی مخلوق کےلیے ہے،جوذلت اورغلامی سے آزاد ہوکر قرب و کمال کی بلندی تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اور وہ صرف انسان ہی ہے؛ کیونکہ انسان کے علاوہ کوئی اور مخلوق حتیٰ کہ فرشتوں میں بھی یہ صلاحیت نہیں کہ وہ (او ادنی) کے مقام تک پہنچ سکیں۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:«ثُمَّ دَنٰا فَتَدَلّٰى. فَكٰانَ قٰابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنىٰ»،(نجم 9)؛ پھر وہ قریب آئے پھر مزید قریب آئے، یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کم (فاصلہ) رہ گیا»۔ یہ مقام اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ کےلیے خاص ہے۔.(قمی، تفسیر قمی: ج 1 ص 95 و ج 2 ص 334).
اس بنا پر ہر وہ شخص جو علمی اور عملی طور پر رضائے الٰہی کے راستے پر گامزن ہوگا، وہ جہاد اصغرسے گذرکرجہاد اکبرکےمیدان میں وارد ہوگا اور یوں وہ ہرقسم کے لغزشوں کا مقابلہ کرپائےگا۔ حج کے روحانی مناسک اور عبادات انسان کےلیے خدا کا قرب حاصل کرنے اور ہرطرح کی غلامی سے نجات پانے کے بہترین اور اہم ترین مواقع ہیں۔ حجاج کرام الہی قرب حاصل کرنے کے واسطے احرام کا سادہ لباس پہن کر دنیا کے دسیوں کششوں اور خواہشات سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔ جیسے کہ اس آیہ شریفہ« وَ أَذِّنْ فِي اَلنّٰاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجٰالاً وَ عَلىٰ كُلِّ ضٰامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ»(حج 27). سے بھی ہمیں آزادی کا سبق ملتا ہے۔
ضیافت الہی اور قرب الہی کے لائق افراد وہی ہیں جو سادہ زیست ہونگے، حرص، تکبر،حسد اور خواہشات نفسانی کے غلام نہ ہونگے۔ اسی طرح وہ کمزور اور لاغرسواری پرسوار ہونے کو عیب نہیں سمجھیں گے۔ «یَاۡتُوۡکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ»؛چنانچہ اس اعلان کے بعد لوگ آپ کے پاس پیدل چل کر اور کمزور اونٹوں پر سوار ہو کر دور دراز راستوں سے آئیں گے۔ ضامر نحیف کمزور اونٹ کو کہتے ہیں۔ راستہ دور ہونے اور زاد راہ کی قلت کی وجہ سے ان کی سواریاں نحیف ہوں گی پھر بھی اس اعلان کے نتیجے میں وہ اس گھر کے حج کے لیے آتے رہیں گے۔ «یَّاۡتِیۡنَ مِنۡ کُلِّ فَجٍّ عَمِیۡقٍ»: لفظ يَّاْتِيْنَ؛ معنی کےاعتبار سے «کُلِّ ضَامِرٍ» کی صفت ہے؛ یعنی «کُلِّ ضَامِرٍ یَّاۡتِیۡنَ» وہ کمزور، نحیف سواریوں پر ہوں گے جو دور دراز راستوں سے آتی ہیں۔ راستے پُرمشقت ہوں گے پھر بھی اس اعلان کا یہ اثر ہوگا کہ وہ شدید مشقت بھی برداشت کرلیں گے؛کیونکہ حج کی دعوت بھی توحید، نبوت اور امامت کی دعوت کی طرح ہی ہے۔ جو سب پرلازم ہے کہ اس دعوت کو لبیک کہیں۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: «وَ لِلّٰهِ عَلَى اَلنّٰاسِ حِجُّ اَلْبَيْتِ مَنِ اِسْتَطٰاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً…» (آل عمران 97)؛ «اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس گھر کا حج کرے» اس گھرکی زیارت کا شرف حاصل کرنے کا حقدار وہی ہیں جو سادہ زیست، غلامی سے آزاد، شیاطین اور دشمنان اسلام کوخود سے دور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، یہی وہ لوگ ہیں جو قرب خدا حاصل کرتے ہیں اور اللہ تعالی کے حضورلبیک کہنے کی لیاقت رکھتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دعوت کے اصلی مخاطب اور پیغمبرخدا کی دعوت پر لبیک کہنے والے وہ ہیں جو تمام تر وابستگیوں اور غلامیوں سے آزاد ہیں۔
2- کعبہ جو کہ مسلمانوں کا قبلہ، مطاف اورعبادت گاہ ہے، پیغمبرخدا حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے نہایت پاکیزگی کے ساتھ تعمیر کیا اور اسے ہرقسم کی آلودگیوں سے پاک و منزہ کیا؛ تاکہ طائفین، عاکفین، ساجدین اور راکعین اس پاک و پاکیزہ مکان کی زیارت کریں اور خود کو بھی ہرقسم کی ناپاکیوں سے پاک و پاکیزہ کر دیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا گھر اس درجہ پر ہے کہ پاکیزہ افراد کے سوا کوئی دوسرا شخص اس کو چھوبھی نہیں سکتا۔ خانہ خدا کو پاک کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے زائرین کا اولین فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنی نفس کی پاکیزگی کو یقینی بنائیں؛ منافقت، جھوٹ، وسوسوں اور تمام تر برائیوں کی آلودگی سے خود کو دورکریں؛ تاکہ لقائےمعبود حقیقی کا حصول ممکن ہوسکے اور اصلی آزادی مل جائے۔
حج اور عمرہ کرنے والے کو معلوم ہونا چاہیے کہ خواہشات نفسانی، خود غرضی، غرور، تکبر اور حسد وغیرہ سے بڑھ کرخطرناک انسان کےلیےکوئی دشمن نہیں؛ جیسے کہ سعدی کہتے ہیں: دشمن به دشمن نپسندد که بی خرد *** با خود کند به مراد هوای خویش. (کلیات سعدی، غزلیات، غزل 38)
بہت سے لوگ ایسے ہیں جو زہریلے اور خطرناک شکاریوں اور سانپوں اور بچھووں جیسے دشمنوں سے نمٹتے ہیں اور اپنے آپ کو ان کے خطرے سے تو بچاتے ہیں؛ لیکن اپنی خواہشات اور وسوسوں کی دشمنی سے خود کومحفوظ نہیں کرتے ہیں۔ انسان کو کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے آپ کو اللہ تعالی کی حفاظت میں رکھے: «وَمٰا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ اَلنَّفْسَ لَأَمّٰارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاّٰ مٰا رَحِمَ…(یوسف 53)؛ اور میں اپنے نفس کی صفائی پیش نہیں کرتا؛ کیونکہ (انسانی) نفس تو برائی پر اکساتا ہے مگر یہ کہ میرا رب رحم کرے،بیشک میرا رب بڑا بخشنے، رحم کرنے والا ہے۔….»۔
حج و عمرہ کا الٰہی سفر اس وقت اندرونی اور باطنی دشمن پرفتح کا سبب بنےگا جب حاجی سادگی، تقویٰ، عمل صالح، پاکیزگی کے ساتھ ابراہیم خلیل الرحمن (ع) اور محمد حبیب اللہ (ص)کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہوجائے۔
3- حج اور عمرہ چونکہ اسلام کے جامع احکام میں سے ہیں اور ان میں ہر دور اور ہر رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہوتے ہیں اور یہ دنیا کے عظیم اجتماعات میں سے ایک ہے؛ لہذا یہ اجتماع اس وقت موثر ہوسکتا ہے کہ اس کی رہنمائی کرنے والا کوئی باصلاحیت فرد موجود ہو، ائمہ اطہارعلیہم السلام سے متعدد روایات مروی ہیں کہ ہرسال حج کےلئے امام زمان علیہ السلام تشریف لاتے ہیں اور حجاج کرام میں موجود ہوتےہیں۔
مفسرین اس آیہ شریفہ «وَ أَذِّنْ فِي اَلنّٰاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ…» کی تفسیر میں فرماتے ہیں:«من تمام الحجّ لقاء الامام ع» (شیخ صدوق، من لا يحضره الفقيه، ج2، ص578) تمامیت حج امام علیہ السلام کی ملاقات پرموقوف ہے؛ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حجاج کرام حج تمام ہونے کے بعد امام علیہ السلام کی زیارت کےلئے جائیں؛ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام کی ولایت کا اقرار کریں؛ یعنی عبادات اور حج اس وقت قبول ہونگے کہ انسان ولایت ائمہ اطہارعلیہم السلام کی گواہی دے۔«اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ اَلْإِسْلاٰمَ دِيناً…(مائده 3)؛ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا». رسول اکرم ص کا حجۃ الوداع میں امامت کا مسئلہ اٹھانا اور ہزاروں صحابہ کرام کی موجودگی میں غدیرخم کے میدان میں ولایت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب اور آئمہ اطہارعلیہم السلام کا اعلان کرنا اس ضرورت کو ظاہر کرتا ہے؛ کیونکہ صرف ولایت اہل بیت اطہار علیہم السلام کے ذریعے ہی انسان ہرقسم کے فرعوںوں اور ظالموں سے نجات پاسکتا ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:«فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ (يَعْنِي بِالْإِمَامِ) وَ عَزَّرُوهُ وَ نَصَرُوهُ وَ اتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ. (اعراف 157)، پس جو ان(امام) پر ایمان لاتے ہیں ان کی حمایت اور ان کی مدد اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں»۔ ان سے مراد وہ ہیں جو امام کو مانتے ہیں اور ظالم کی اطاعت سے بچتے ہیں۔ (کلینی، الكافي: ج1، ص: 429).
4- حج جو کہ اللہ تعالی کی مخلصانہ عبادت کا مظہرہے، زندگی میں برکت کا عامل ہے اور انسان کو معاشی اور سماجی تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: «فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هٰذَا اَلْبَيْتِ اَلَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَ آمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ»(قريش، 3 ـ 4)؛ «چاہیے تھا کہ وہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں۔جس نے انہیں بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف سے انہیں امن دیا»۔ حج کو صحیح معنوں میں انجام دینا امت اسلامیہ کو غیروں کے تمام مادی انحصار سے آزاد کرسکتا ہے اور حجاج کرام اور حرمین شریفین کے خادموں کو مشرق و مغرب سے بے نیاز ہونے کا سبق سکھاتا ہے۔ حج کرنے والوں کے لئے پیغمبراسلام ص اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے وعدوں میں سے ایک، اقتصادی طور پر بے نیاز ہونا ہے؛ جیسے کہ رسول اکرم ص فرماتے ہیں:«سَافِرُوا تَصِحُّوا وَ جَاهِدُوا تَغْنَمُوا وَ حُجُّوا تَسْتَغْنُوا،(برقی، المحاسن، ج 2 ص 345)؛ سفر کرو اور صحت پاؤ، (دشمنوں سے) لڑو اور مال غنیمت حاصل کرو، اور حج کرو مالدار بن جاؤ». اسی طرح امام على بن الحسين ع فرماتے ہیں:«حِجّوا وَاعتَمِروا تَصِحَّ اَبدانُكُمَ و تَتَّسِعْ اَرزاقُكُم وَ تُكفُوا مَؤوناتِكُم و مَوؤُناتِ عِیالِكم. (کلینی،الکافی، ج 4 ص 252) ؛حج اور عمرہ کرو؛ تاکہ تمہارا جسم تندرست ہو اور تمہارا رزق فراواں ہو اور تمہاری اور تمہارے گھر والوں کی ضروریات پوری ہوں». جیسا کہ حج نہ کرنا یا حج کے مناسک کو صحیح طریقے سے بجا نہ لانا مسلمانوں کےلئے فقر اور تنگدستی کا سبب قرار دیا گیاہے۔ امام صادق علیہ السلام حج کا فلسفہ اور اس کی تشریع کے اسرار بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:«…فَجَعَلَ فِيهِ الِاجْتِمَاعَ مِنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ يَتَعَارَفُوا وَ لِيَتَرَبَّحَ كُلُّ قَوْمٍ مِنَ التِّجَارَاتِ مِنْ بَلَدٍ إِلَى بَلَدٍ وَ لِيَنْتَفِعَ بِذَلِكَ الْمُكَارِي وَ الْجَمَّالُ وَ لِتُعْرَفَ آثَارُ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ تُعْرَفَ أَخْبَارُهُ وَ يُذْكَرَ وَ لَا يُنْسَى وَ لَوْ كَانَ كُلُّ قَوْمٍ إِنَّمَا يَتَّكِلُونَ عَلَى بِلَادِهِمْ وَ مَا فِيهَا هَلَكُوا وَ خَرِبَتِ الْبِلَادُ وَ سَقَطَ الْجَلَبُ وَ الْأَرْبَاحُ وَ عَمِيَتِ الْأَخْبَارُ وَ لَمْ يَقِفُوا عَلَى ذَلِكَ فَذَلِكَ عِلَّةُ الْحَجِّ،(شیخ صدوق،علل الشرائع،ج2،ص، 406)؛سرزمین مکہ میں مشرق اور مغرب سے ایک اجتماع وجود میں لایا گیا؛ تاکہ لوگ ایک دوسرے کو پہچان سکیں اور رسول اکرم ص کی احادیث مبارکہ سے آشنائی حاصل کرسکیں اور احادیث اور اخبار فراموش نہ ہوجائیں۔ اگر ہرگروہ صرف اپنے علاقوں اور زمینوں پر اکتفا کرتے تو نابود ہوجاتے، روئے زمین پر موجود تمام شہر ویران ہوجاتے، تجارت اور معیشت تباہ ہوجاتی، گزارشات اور اخبار لوگوں تک نہ پہنچتے، یہ ہے حج کا فلسفہ»۔ اسی طرح امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام نے بھی حج کے فلسفے کی وضاحت کرتے ہوئے،عرفانی، روحانی، ثقافتی، تعلیمی، تربیتی اور تاریخی اسرار کا ذکر کیا اور اپنے کلام کی تائید میں آیہ شریفہ، لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ۔۔۔۔ (حج 28)؛ تاکہ وہ ان فوائد کا مشاہدہ کریں جو انہیں حاصل ہیں» کا حوالہ دیا۔ اور اس کے بعد حج کے معاشی پہلو پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا:«… وَ ما في ذلِكَ لِجَميعِ الْخَلْقِ مِنَ المَنافِعِ … وَ مَنْفعةُ مَنْ في المشرقِ و المغربِ وَ مَنْ فى البرِّ و الْبَحْرِ مِمَّنْ يَحِجُّ وَ مِمَّن لا يَحِجّ مِنْ تاجِرٍ وَ جالِبٍ وَ بايِعٍ و مُشْتَرٍ وَ كاسِبٍ وَ مِسْكينٍ وَ قَضاءِ حَوائِجِ أهلِ الاطْرافِ وَ الْمَواضِعِ الْمُمكنِ لَهُمُ الإجْتِماع فِيها، كَذلِكَ لِيَشْهَدُوا مَنافِع لَهُم… (شیخ صدوق،عيون اخبارالرضا، ج 2 ص 90 و علل الشرایع ، ص 405)؛ ….حج کے واجب ہونے کی علتوں میں سے ایک علت یہ ہے کہ اس کے فائدے سب کو پہنچتےہیں سب اس کے فائدوں سے بہرمند ہوتے ہیں، اس میں ایسے فائدے ہیں جو مشرق، مغرب اور سمندر میں رہنے والوں کو بھی حاصل ہوتے ہیں، حج کرنے والے اور نہ کرنے والے سب مستفید ہوتے ہیں، خرید و فروش درآمد اور برآمد کرنے والے سب اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔۔۔۔۔»۔
4- حج، کا مطلب ہے اللہ کی طرف رجوع کرنا اس مقصد کے ساتھ کہ اس کی خلوص نیت سے عبادت کی جائے: (فَمَنْ حَجَّ بَيْتَ اللَّهِ فَقَدْ قَصَدَ إِلَى اللَّه… ) (شیخ صدوق: علل الشرایع: ج 1، ص 133، و من لایحضره الفقیه: ج 1 ص 199). حج انسان کو اس صورت میں اللہ تک پہنچاتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور پر انحصار چھوڑ کر رب کی طرف رجوع کرے، شیطانوں، ان کے پیروکاروں اورشیطانی فتنوں کو زندگی کے ذاتی اموراور سماجی میدانوں سے نکال دے، مشرکوں اور اسلام کے دشمنوں کی پالیسیوں کا سختی سے مقابلہ کرے۔ حج میں مشرکوں سے برائت اور بیزاری کے حکم کا راز استعماری اور استکباری ظالموں پر ہر قسم کے انحصار کا خاتمہ ہو سکتا ہے؛ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: «وَ أَذٰانٌ مِنَ اَللّٰهِ وَ رَسُولِهِ إِلَى اَلنّٰاسِ يَوْمَ اَلْحَجِّ اَلْأَكْبَرِ أَنَّ اَللّٰهَ بَرِيءٌ مِنَ اَلْمُشْرِكِينَ وَ رَسُولُهُ۔۔۔ (توبه 3) اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن لوگوں کےلیے اعلان ہے کہ اللہ اور اس کا رسول بھی مشرکین سے بیزار ہیں…»۔ حجاج، رمی جمرات میں تین شیطانوں کی علامت پر کنکریاں مار کر، درحقیقت ناپسند چیزوں اور اخلاقی برائیوں کے خلاف لڑنے کے ساتھ ساتھ دین اسلام کی تعلیمات کے دفاع اور شیطانی قوتوں کی سازشوں سے لڑنے کےلئے خود کو تیار کر رہے ہیں؛ یوں وہ اپنے اندر سے ہرقسم کی گندگی (ذاتی، سماجی، مادی اور روحانی) پلیدیوں کو دور کرتے ہیں۔ امام سجاد علیہ السلام نے شبلی کی حدیث میں رمی جمرات کو شیطان پر انسان کے غصے اور اس کی دشمنیوں کا مقابلہ کرنے کی علامت قرار دیتے ہوئے شبلی سے پوچھا:«عِنْدَ مَا رَمَيْتَ الْجِمَارَ نَوَيْتَ أَنَّكَ رَمَيْتَ عَدُوَّكَ إِبْلِيسَ وَ غَضِبْتَهُ بِتَمَامِ حَجِّكَ النَّفِيسِ؟(نورِی: 1408 ق، ج10، ص: 171)؛ جب آپ نے کنکریاں پھینکیں تو آپ نے اپنے دشمن؛ یعنی شیطان کو بھگانے اور حج کے اختتام تک اس سے ناراض رہنے کا فیصلہ کیا»؟۔
ہم نے جن مطالب کا ذکر کیا ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حج، زندگی کے تمام پہلوؤں میں انسان کو ذاتی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی میدانوں میں ہرقسم کی پلید وابستگیوں سے بچا کر حقیقی آزادی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
منابع:
قرآن کریم، ترجمہ شیخ محسن نجفی
امام خمینی، سید روح الله، صحيفه امام (صحیفه نور) ، مؤسسه تنظيم و نشر آثار امام خمينى( س) زمستان 1379 ش.
برقي، أحمد بن محمّد (ت 280 ه. ق)، 1413 ه. ق، المحاسن، تحقيق: مهدي الرجائي، قم: المجمع العالمي لأهل البيت، الطبعة الأولى۔
سعدی شیرازی، شیخ مصلح الدین، کلیات، تصحیح، فروغی، محمد علی، انتشارات اقبالف چاپ اول 1382۔
شریف رضی، محمّد بن الحسين، نهج البلاغة، (ت 406 ه. ق)، تحقيق: السيّد كاظم المحمّدي و محمّد الدشتي، انتشارات الإمام علي عليه السّلام- قم، الطبعة الثانية 1369 ه. ق.
شیخ صدوق، محمّد بن عليّ (م381 ه. ق)، عيون الأخبار الرضا عليه السّلام، تحقيق: مهدى الحسيني اللاجوردي، طهران منشورات جهان. 1378 ش
شیخ صدوق، محمّد بن عليّ (م ت 381 ه. ق)، علل الشرائع، دار إحياء التراث- بيروت، الطبعة الأولى 1408 ه ق۔
شیخ صدوق،محمّد بن عليّ (م 381 ه. ق)، من لا يحضره الفقيه، قم، دفتر انتشارات اسلامي وابسته به جامعه مدرسين حوزه علميه قم، چاپ دوم (1413ق).
قمى، على بن ابراهیم،(1404 ق)، تفسیر القمی، تحقیق موسوى جزائرى، طیب، قم دار الکتاب، چاپ سوم۔
کلینی، محمد بن یعقوب، (م 329 ه ق)، الکافی، تحقيق: عليّ أكبر الغفّاريّ، دار الكتب الإسلاميّة- طهران، الطبعة الثانية 1389 ق۔
نوري، حسين بن محمدتقي، (1408ق). مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، تحقيق و نشر، چاپ اول، قم: مؤسّسة آل البيت لإحياء التراث.