اسلامی انقلاب اور امام خمینی کے میری زندگی پر اثرات

میں حقوق خواتین کے دفترکا مشکور ہوں کہ میری زندگی پر انقلاب اور امام خمینی کے اثرات کے بارے میں چند سطر لکھنے کا موقع فراہم کیا۔
تحریر: معصومه اسعد پاز
ترجمہ: ڈاکٹرغلام مرتضی جعفری
بلاشبہ، یہ ان مسائل میں سے ایک ہے جس نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے؛ کیونکہ انقلاب اس وقت کامیاب ہوا جب میں نوعمرتھی۔ اس وقت اگرچہ میرا تعلق ایک مسلمان گھرانے سے تھا؛لیکن اسلام کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابرتھے۔ بس میں اللہ، رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ و سلم، ان کی ھمسر گرامی حضرت خدیجہ، ان کی لخت جگر حضرت فاطمہ زہرا اور ان کے نواسے حضرت امام حسن اور امام حسین سلام اللہ علیہم اجمعین پر ایمان رکھتی تھی۔ ان سب کا احترام کرتی تھی، اہل بیت کا احترام اس لئے کرتی تھی کہ وہ حضرت رسول اکرم کی آل ہے، اس لئے نہیں کہ وہ معصوم ہیں!، واجب الاطاعت ہیں، اللہ نے ان کی اطاعت ہم پر فرض کیا ہے، بس رسول اکرم کی عترت ہونے کی وجہ سے ان کا احترام کرتی تھی بس!۔ امامت کے بارے میں خاص علم نہیں تھا، امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں بھی کوئی خاص نہیں جانتی تھی۔ شرعی احکام کے بارے میں بھی معلومات نہ ہونے کے برابر تھے۔ اسی طرح یہ بات کہنا اہم ہے کہ انقلاب اسلامی سے پہلے اسلام کی نمایندگی وہابیت کرتی تھی، خاص کر آل سعود اور ان کے اہلکار خود کو اسلامی نمونہ معرفی کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ درحقیقت ہم نے جس اسلامی اسکول میں تعلیم حاصل کی وہ عربیت اور اسلام کے نعرے کے تحت قائم کیا گیا تھا اور اسے سعودی عرب کی حمایت حاصل تھی۔ وہاں مسلمانیت اور انسانیت سے زیادہ عربی ہونے پر فخر کیا جاتا تھا۔ سارے اساتید سنی تھے، اہل سنت سعودی سفارت خانے سے مرتبط تھے؛ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت عربیت کے سائے میں تمام شیعہ سنی متحد تھے، ان میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آرہا تھا؛ کیونکہ ہم سب عرب تھے، عرب ہونا اس زمانے میں سب سے اہم تھا۔ کسی قسم کی مذہبی، قومی یا سیاسی سوچ اورمداخلت کے بغیرعربیت کا دفاع کرنا ضروری ہوتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب عربی کھانے، خلیل جبران کی شاعری، عربی رقص اور عربی زبان کی شان تھی!۔ اٌس دور میں امریکی اسلام کی طرح، دینی اور قرآنی کلاسز کے ساتھ ساتھ عربی ڈانس کی کلاسز بھی ہوتی تھیں۔ بچوں کی عرب شناخت ایسی تھی کہ جب ان سے پوچھا جاتا کہ تمہارا مذہب کیا ہے تو وہ بغیر کسی سوچ بچار کے یہی کہتے عرب!؛ یعنی خود کو عربی کہنے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ اگر ان سے پوچھا جاتا کہ ان کی قومیت کیا ہے تو جواب عرب ہی ہوتا تھا؛ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ شامی ہیں، لبنانی ہیں، عراقی ہیں یا سعودی، کیونکہ وہ سب عرب تھے۔ ان حالات میں امام خمینی نے ایران میں شاہ کا تختہ الٹ دیا، ملکِ ایران میں آمریت کا خاتمہ ہوا اور انقلاب کامیاب ہوا، سنہ 1982 میں انقلاب کی یہ روشنی ارجنٹائن تک پہنچی۔ اس دور میں خمینی کے خلاف منفی تبلیغات کا عروج تھا؛ کیونکہ انہوں نے بادشاہت کا تختہ الٹ کر ایک اسلامی جمہوریت قائم کی تھی؛ جبکہ مغرب نے اس جمہوریت کو آمریت کے برابر قرار دے کر منفی تبلیغات کرنا شروع کردیا تھا۔ ہمیں سچائی تلاش کرنے اور اس انقلاب کے اصولوں پر ایمان لانے اور امام خمینی کے حقیقی کردار کو دکھانے کے لیے بہت سے پردے ہٹانے پڑے اور بہت سے سوالات کے جوابات دینے پڑے۔ دنیا بھر میں امام کے خلاف اتنی منفی تبلغات کی گئیں کہ امام کو آمر اور شیطان تک سے تشبیہ دی گئی! سماجی تخیل میں یہ تصویر نصب کی گئی کہ امام ایک آمر ہے، کہ انہوں نے عورتوں کو پردہ کرنے پر مجبور کیا ہے، ایرانی عورت مظلوم ہے۔۔۔۔ !! خمینی نے ایرانی قوم پرجہاد مسلط کیا ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ جب میں 15 سال کی تھی تو میرے ذہن میں بھی یہی باتیں اور یہی تصورات تھے؛ کیونکہ میں بھی انہی تبلیغات سے متاثرتھی، یہاں تک کہ میرے ملک میں آنے والے ایرانیوں سے میری ملاقات ہوئی۔ جب میں نے ایرانی تارکین وطن سے نہایت تعجب کے ساتھ امام خمینی کی جانب سے رونما ہونے والے مظالم کے متعلق سوال کیا توانہوں نے امام خمینی کی اصل شخصیت، روحانیت اور انسانیت کے بارے میں بتایا، ان کی بہت تعریفیں کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی ایک بے مثال لیڈر ہیں۔ میں بہت متاثر ہوئی، جب میں نے دیکھا کہ اگر کوئی ان پر تنقید کرتا ہے وہ کس طرح امام کا دفاع کرتے ہیں: وہ امام کا فاع کرتے ہوئے کہتے کہ “امام ہمارے لئے سب کچھ ہیں”۔ میں ایک سیکولر ملک میں رہتی تھی، مجھے نہیں معلوم تھا کہ لیڈر کیا ہوتا ہے!، میں اس حیرت انگیز محبت کو نہیں سمجھ سکتی تھی؛ لیکن جیسے جیسے میں اسلامی احکام اور اسلامی نظام سے زیادہ واقف ہوتی گئی، میں امام کے کردار کو مزید سمجھنے لگی اور بنیادی طور پر میں نے محسوس کیا کہ اب میری زندگی کو صحیح راستہ مل چکا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امام خمینی نے اپنی عظیم حکمت سے ایک ایسے انقلاب کی رہبری اور قیادت کی جو سرحدی حدود سے بالاتر تھا اور ان کا مقصد یہ تھا کہ نورانیت کو پوری دنیا میں پھیلایا جائے؛ تاکہ روحانیت اور دین کو عالمی اسکتبار اور منافقت سے نجات دلا سکے۔ ان کی اس حکمت نے میری زندگی بھی بدل کر رکھ دی تھی۔ اس وقت تک میں دنیا کو ہی سمجھ نہ سکی تھی۔ تب مجھے دنیا کی سمجھ آئی کہ انقلاب اور امام کے ناقابل تسخیر جذبے نے مجھے ہر دن بہتر سے بہتر ہونے کی طاقت دی اور ہمیں دنیا پر حکمرانی کرنے والوں کا حقیقی چہرہ دکھایا؛ تاکہ ہم دھوکے میں نہ آئیں۔ میرے لیے سب کچھ بدل گیا اور یہ ایک لمبی نیند سے جاگنے جیسا تھا۔

اسلام سے واقفیت
میں حقیقت اور حقیقی اسلام کو جاننے کی تجسس میں تھی؛ اگرچہ میں پہلے سے ہی مسلمان تھی، میرے ذہن مین بہت سے سوالات تھے؛ کیونکہ میں نے اس وقت تک جس اسلام پرعمل کیا تھا وہ محمدی اسلام سے بہت دورتھا۔ میں نے بطور مسلمان اپنی کھوئی ہوئی شناخت تلاش کرنا شروع کی۔ میں مسلمان تو تھی؛ لیکن میں پنجگانہ نماز تک نہیں پڑھتی تھی، میں مسلمان توتھی؛ لیکن میں نے حجاب نہیں پہنا، میں شیعہ مسلمان تو تھی؛ لیکن مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ شیعہ ہونے کا کیا مطلب ہے!؟ ہم میں اور سنیوں میں کیا فرق ہوتا ہے؟۔ میں پہلے جیسی زندگی نہیں گزارسکتی تھی، اب یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ حقیقت نہ جانوں! اب مجھے فیصلہ کرنا تھا کہ کیا بننا ہے، کیا میں اپنی زندگی، پہلے کی طرح جاری رکھ سکتی ہوں؟ گویا میں یہ نہیں جانتی تھی کہ اسلام کیا کہتا ہے؟ کیا میں اس حقیقت کو نظر انداز کر سکتی ہوں؟؛ جب کہ بہت سے شہیدوں نے اسلام کے لیے اپنی جانیں دی ہیں اور یہ پیغام مجھ تک اور دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکا ہے؟ عشق خدا میں اپنی جان تک دینے والا ایک ایسا پیغام تھا جس نے مجھے بہت متاثر کیا اور مجھے ایک باعمل مسلمان ہونے، سچ پوچھنے اور تلاش کرنے کی ترغیب دی۔ یہ سب کچھ آسان نہیں تھا، یہ ایک دم نہیں ہوا تھا؛ بلکہ یہ بتدریج ہوا۔ اس عمرمیں مجھے بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا؛ کیونکہ میرے علم کی ترقی کے ساتھ، میں جانتی تھی کہ مجھےاس پرعمل کرنا ہے، اور مجھے کئی بار ماحول اور معاشرے کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ وہ وقت ہے جب میں نے شہیدوں اور مجاہدوں (خدا کی راہ میں لڑنے والے) کی قربانیوں اور شاہ کے مقابلے میں امام خمینی کی طاقت کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ امام خمینی شاہ سے نہیں ڈرتے تھے؛ کیونکہ وہ صرف اللہ سے ڈرتے تھے۔ مجھے طاقت ملی، حوصلہ ملا۔
مسجد کی بنیاد
میرے لیے یہ بہت اہم تھا کہ اسلامی جمہوریہ نے وحدانیت کے لئے قیام کیا، مساجد بنوائیں؛ کیونکہ یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں میں سیکھ سکتی تھی؛ لہذا بنیادی طور پر مسجد ایک ایسی جگہ تھی جس نے مجھے آگےبڑھنے اور سیکھنے کا موقع دیا، میرے لیے یہ خشک صحرا کے بیچ میں ایک چشمہ کی طرح تھا۔
1983: مسجد توحید
یہ مسجد ایک ایسی جگہ تھی جو نہ صرف عبادتی سرگرمیوں کے لیے وقف تھی؛ بلکہ اس نے بہت سی بین المذہبی، ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا۔ اسی وجہ سے میں نےمختلف شعبوں میں معلومات حاصل کیں اور میری علمی فعالیتوں میں بھی اضافہ ہوا، ہم نے ہسپانوی زبان میں مختلف کتابوں کا ترجمہ شروع کیا؛ کیونکہ اسلام کے بارے میں اس زبان میں کوئی خاص کتاب ہی موجود نہیں تھی۔ اس کےعلاوہ ائمہ اطہارعلیہم السلام کی ولادت شہادت کی محافل اور مجالس منعقد ہوئیں جو ہمارے لئے بالکل نئی چیز تھی اور ہم نے جمعرات کی رات دعائے کمیل میں شرکت کرنا شروع کیا؛ حالانکہ ہمارے ہاں جمعرات اور جمعہ چھٹی نہیں ہوتی ہے؛ بلکہ کام کے دن ہوتے ہیں، اس کے باوجود وقت نکال کر دعائے کمیل میں شریک ہوئی۔
مجھے نئی بنائی گئی مسجد میں اپنی پہلی نماز یاد ہے۔ ہم نے ابھی نماز کا ہال تیار نہیں کیا تھا اور ہمارے پاس قالین یا کرسیاں بھی نہیں تھیں۔ مسجد کے صحن میں دعائے کمیل کا پروگرام رکھا گیا جس میں ایرانی شہریوں کی ایک بڑی تعداد شریک تھی، وہ دعائے کمیل کے دوران رو رہے تھے، ان کو روتے دیکھ کر مجھے تعجب ہوا؛ کیونکہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ لوگ رو کیوں رہے ہیں۔ یہ میری پہلی دعا تھی۔

جب اس دعا کا ہسپانوی میں ترجمہ کیا گیا تودعائے کمیل کا مطلب سمجھ میں آگیا اور بہت اچھا لگا۔ میں نے اس وقت جو روحانیت کا تجربہ کیا اسے عام الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک انقلاب تھا جس نے میرے دل کو چھو لیا اور میری پوری زندگی بدل کر رکھ دی۔ ایران عراق جنگ کے دوران، ارجنٹائن سمیت دنیا بھر میں موجود ایرانی خاندانوں میں سے کوئی نہ کوئی شہید ہوچکا تھا یا محاذ جنگ پرتھا، ایرانی اسلام اورانقلاب کی فتح کے لئے دعائیں مانگتے تھے، تب میں سمجھ گئی کہ دعا کو اتنی اہمیت کیوں دی جاری ہے اور اس کے کیا اثرات ہیں۔ جنوبی لبنان میں حزب اللہ کی تشکیل اور اسلامی انقلاب کے اثرات کا ہم نے مشاہدہ کیا؛ کیونکہ لبنان میں ہمارے قریبی رشتہ دار تھے اور ہم نے تمام واقعات کو قریب سے دیکھا اور اس ملک میں اسلامی انقلاب کے اثرات کا مشاہدہ کیا۔
ارجنٹائن میں ایرانیوں کی آمد
ارجنٹائن میں جمہوریت اور سیکولرازم کی ترقی کے ساتھ ہی ایران اور ارجنٹائن کے درمیان مختلف شعبوں: تجارتی، ثقافتی، سائنسی اور تعلیمی تعلقات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات تھے، سفارت خانہ، تجارتی دفتر، ثقافتی دفتر سمیت ایٹمی توانائی کے معاہدے ہوچکے تھے۔ ڈاکٹر صالحی کا دونوں ممالک کے تعلقات کے فروغ میں اچھا کردار تھا، ان کی اور ان کے خاندان کی بہترین کارکردگی ناقابل فراموش ہے۔ دوسری طرف، ارجنٹائن غیرملکی طلباء کی تعلیم کےلئے ایک اچھا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ بغیرکسی امتحان کے داخلے کا اعلان بھی ہوچکا تھا؛ لہذا بہت سے ایرانی طلباء نے تعلیم حاصل کرنے کے لیے میرے ملک کا انتخاب کیا، زیادہ تر طلباء طب (میڈیکل)کے شعبےسے وابستہ تھے؛ کیونکہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کےساتھ ہی بہت سے ڈاکٹر اور دانشور ملک چھوڑ چکے تھے تو امام خمینی نے سفارش کی تھی کہ شہری بیرون ملک جا کر تعلیم حاصل کریں اور پھرملک واپس آکر ملت اسلامیہ کی خدمت کریں۔ امام کی سفارش پر بہت سے ایرانی شہریوں نے تعلیم حاصل کرنے کےلئے بیرونی ممالک خاص کر ارجنٹائن کا رخ کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام پر پختہ ایمان کے ساتھ ساتھ وہ اپنے رہبراور قائد کا کتنا احترام کرتے تھے۔ اس زمانے کے ایرانی میرے لیے رول ماڈل تھے؛ کیونکہ مغربی پروپیگنڈے میں جو کچھ میں نے سنا یا دیکھا تھا اس کے برعکس تھا۔ ایک اور چیز جس نے مجھے حیران کیا وہ میاں بیوی کے درمیان خاندانی تعلق اور تعاون تھا۔ اگرعورت تعلیم حاصل کررہی ہوتی ہے تو مرد بچوں کی دیکھ بھال کرتا ہے اور اگر مرد درسگاہ اور کام پر جاتا ہے تو خاتون بچوں کی ذمہ داری سنبھالتی ہے، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور طریقہ کار نے مجھے بہت متاثرکیا۔
حجاب
مخالفین پورے زور اور شور کے ساتھ تبلیغات کرتے تھے کہ خمینی نے خواتین پر حجاب مسلط کرکے خواتین کو1400 سال پیچھے دھکیل دیا ہے؛ لیکن میں نے دیکھا کہ ایرانی باحجاب خواتین اپنے شوہروں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے آئیں ہیں اور یونیورسٹی میں داخلہ لے رہی ہیں؛ کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ ملک کو ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت تک میں کبھی ایسی خواتین کو نہیں دیکھا تھا کہ شادی شدہ، بچہ دار اور وہ بھی پورے حجاب کے ساتھ یونیورسٹی جاتی ہوں۔ جب کوئی ان کے حجاب پراعتراض کرتا تو وہ بھرپورطریقے سے دفاع کرتیں تھیں۔ اس وقت تک مجھے معلوم نہیں تھا کہ قرآن میں حجاب کا حکم ہے۔ میں نے سوچ رہی تھی کہ یہ ایک ایسا لباس ہے جو عرب ممالک کی ثقافت کو ظاہر کرتا ہے؛ لیکن جب میں نے حجاب اور قرآن میں اس کے دلائل سے متعلق لیکچرز میں شرکت کی اور شہید مطہری کی کتابوں کا مطالعہ کیا تو حجاب کی اہمیت کا اندازہ ہوا، شہید مطہری نے ول ڈیورنٹ کے حوالے سے استدال کرتے ہوئے 20ویں صدی میں خواتین کی حالت میں تبدیلی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: “خواتین کی آزادی کا نعرہ صنعتی انقلاب کا واقعہ تھا۔ وہ سستے مزدوروں کی تلاش میں تھے، انہوں نے بےقابو مردوں پرعورتوں کو ترجیح دی؛ کیونکہ عورتیں کم اجرت پر کام کرنے کو تیار ہوتیں ہیں۔ ایک صدی قبل انگلستان میں مردوں کے لیے کام تلاش کرنا مشکل تھا، لیکن فیکٹری کے دروازوں پر اشتہارات اور پوسٹرز لگے رہتے تھے کہ مرد حضرات اپنی بیویوں اور بچوں کو وہاں کام کرنے کے لیے بھیجیں!!۔

میں، جو اس وقت خواتین بزنس ہائی اسکول کی طالبہ تھی، اسکول میں خواتین کو کمپنیوں میں ملازمت کا طریقہ کار سکھایا جاتا تھا، جب میں نے شہید مطہری کے یہ جملےپڑھے تو مجھے لگا کہ میرے ساتھ دھوکہ ہوا ہے؛ میں سمجھ چکی تھی کہ کمپنیاں کم معاوضے کے چکرمیں ہی خواتین کو ترجیح دیتی ہیں، در اصل ان کا ھدف معاوضہ کم دینا ہے خواتین سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، خواتین کی آزادی محض ایک علامت ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔دوسری طرف، مصنوعات کی فروخت کے لیے خواتین کی خدمات حاصل کرنے پراعتراض نے بھی میرے سوچنے کا انداز بدل دیا، کیونکہ مغرب میں جدیدیت کی علامت کے طور پر فیشن اور جسمی نمائش کرنا سکھایا جاتا ہے۔
میں سمجھ چکی تھی کہ حجاب معاشرے میں کردار ادا کرنے کی راہ میں کسی قسم کا کوئی رکاوٹ نہیں ہے؛ بلکہ فساد اور بدعنوانی سے بچنے کی بنیاد ہے، حجاب کا یہ فلسفہ مجھے منطقی لگا۔ بہرحال میرے پاس تمام شواہد موجود تھے، میں اسلامی قوانین کے مطابق لباس پہننا چاہتی تھی، حجاب کرنا چاہتی تھی؛ لیکن لوگوں کے تعصبات پھر بھی میرے لیے رکاوٹ بنے ہوئے تھے؛ جیسا کہ میرے پڑوسی نے کہا کہ حجاب کا انتخاب کرکے، میں ایک مختلف سمت میں جا رہی ہوں!۔ میں تمام مشکلات کا سامنا کرنے کو تیار نہیں تھی۔ اس لیے میں نے زیادہ ترجگہوں پر حجاب پہننا شروع کیا، ہر جگہ نہیں!۔ مغرب میں حجاب ایک جہاد تھا اور اس نے مجھے شہیدوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا۔ راہ خدا میں قربانی اور خُدا کا قرب حاصل کرنے کی سوچ نے سب کچھ آسان کردیا۔ اور یہ بھی کہ اس الٰہی حکم کو جان کر مجھے یقین ہو گیا کہ خدا جو حکم دیتا ہے وہ لوگوں کی بھلائی کے لیے ہے نہ کہ ان کی برائی کے لیے اور سنہری اصول یہ ہے کہ اگر میں اللہ کی اطاعت کرتی ہوں تو خدا ضرورمیری مدد کرے گا اور ہرقسم کے نقصانات سے بچائےگا، مجھے اپنے حال پر رہا نہیں کرےگا۔
انقلاب اسلامی کی وجہ سےسال بہ سال میری زندگی بدلتی گئی، جو کہ ایک نعمت تھی، کیونکہ میں جتنا زیادہ اسلام پر عمل کرتی گئی، میں فضول چیزوں سے دور ہوتی گئی، مطالعہ کرنے، عبادت کرنے اور دعا کرنے کا شوق بڑھتا گیا، انہی مصرفیات نے باقی فضولیات کی جگہ لے لی اور میری زندگی پرسکون ہوتی چلی گئی۔ میں نے نہ صرف وقت پر نماز ادا کرنا شروع کیا؛ بلکہ اپنے روزمرہ شیڈول میں تبدیلی کی اور نماز کے اوقات کے مطابق اپنے منصوبوں کو ترتیب دینا شروع کر دیا جس سے اپنا وقت زیادہ نتیجہ خیز چیزوں پر گزارنا سیکھا، میں نے فضول قسم کی تقریبات میں شرکت کرنا چھوڑ دیا، جس سے قیمتی وقت ضائع ہوتا تھا۔ آخر کار، ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، میں نے ہمیشہ حجاب پہننے اور حجاب کے ساتھ میڈیکل یونیورسٹی میں پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے بعد میری زندگی مزید پرسکون ہوگئی، مجھے حقیقی آزادی مل گئی، مجھے امن ملا، اعلیٰ اور خدا پسندانہ معاملات پر توجہ دینے اور باطل سے بچنے کا موقع ملا۔ میرے انتخابی راستے پر میرے والدین مطمئن اور پرسکون تھے، انہیں کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں تھا۔
جیسا کہ میں نے کہا، مسجد صرف نماز کے لیے نہیں تھی؛ بلکہ یہ ایک حقیقی تعلیمی مرکز تھی، جہاں ہم نے قرآن، عقائد، احکام فقہ اور اخلاقیات سیکھے۔ مسجد میں دینی مدرسہ قائم کیا گیا، ایک سیکشن مردوں کے لیے، ایک سیکشن خواتین کے لیے۔ میں روزانہ سکول کے بعد مسجد میں موجود مدرسہ جایا کرتی تھی۔ جب مجھے بتایا گیا کہ قم میں خواتین کے لیے ایک خصوصی یونیورسٹی ہے اور مجھ سے وہاں پڑھنے کے لیے کہا گیا تو تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایران جانا چاہا، لیکن میرے والدین اس بات پر راضی نہیں ہوئے کہ میں ایران کا سفر کروں؛ چنانچہ میں نے طب (میڈیکل)کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، میں نے سوچا کہ مستقبل میں اس ڈگری کے ساتھ ایران یا کسی اور اسلامی ملک کا سفر کر سکوں گی۔ میں ایک ایسے فرد سے شادی کرنا چاہتی تھی جومیرا ھم فکرہو۔ کچھ مسلمان طلباء مسجد کے ہاسٹل میں رہائش پذیرتھے چار سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1987 میں ایران چلے گئے۔ ان میں سے ایک میرے شوہر تھے، جنہوں نے ایران کے سفر کے بعد کہا کہ انہیں اتنی خوشی ملی ہے کہ وہ خودکو “پھولوں سے بھرے باغ میں شہد کی مکھی کی طرح” محسوس کرتے ہیں۔ 1989 میں اسے تبلیغ کے لیے کولمبیا کے شہر بوینونٹورا اور پھر ارجنٹائن بھیج دیا گیا۔ ارجنٹینا واپس آنے کے بعد، میرے والد نے کئی سالوں کے بعد بالآخر شادی کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور مجھے ایک دیندارعورت بننے اور اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے لیے بس یہی ضرورت تھی۔
اسلامی انقلاب، میرے شوہر اور خاندان، خدا کا تحفہ
جب بھی میں انقلاب اسلامی کے بارے میں بات کرتی ہوں تو مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، میں وجد میں آتی ہوں، ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوتا ہے؛ کیونکہ انقلاب نے میری زندگی میں بھی انقلاب پیدا کیا ہے، یہ نعمتیں ناقابل تصور جگہوں سے ملتی ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَ مَن یَتَّقِ اللهَ یَجعَل لَهُ مَخرَجًا ٭ وَ یَرزُقهُ مِن حَیثُ لا یَحتَسِب۔ ارجنٹائن میں ایک مسلمان نوجوان کے لیے زندگی آسان نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک غیر اسلامی ملک ہے جس میں مسلم اقلیت میں ہیں، ملک کی ثقافت اسلامی ثقافت سے بہت مختلف ہے، اور تارکین وطن مسلمان اس معاشرے کی بہت زیادہ تقلید کرتے ہیں؛ لہذا، ہر کوئی خود کوتبدیل کرنے کا فیصلہ نہیں کرسکتا ہے۔ انقلاب نے میری جان بچائی اور میرے شوہر جیسے بہت سے لوگ، جو فلسفے کے طالب علم ہونے کے ناطے ایک اچھے جگہے کی تلاش میں تھے، اسی دوران ایران سے بہت سے لوگ ارجنٹائن پہنچے تو ہمیں ایسا لگا کہ ایک پیاسے شخص کو ٹھنڈا اور میٹھا پانی ملا ہو۔ ان کے آنے سے مسجد میں مزید رونق آئی اور مسجد کی فعالیتوں میں اضافہ ہوا، جو آج بھی جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میرا شوہر، خاندان اور انقلاب اسلامی اللہ تعالی کی جانب سے ایک بابرکت ھدیہ تصور کرتی ہوں۔ الحمدلله.
بانی انقلاب؛ آج بھی زندہ ہے
امام خمینی انقلاب کے بانی اور ایک سیاسی، مذہبی روحانی شخصیت کے طورپر جانے جاتے ہیں، یہ سچ ہے کہ ان کی روح ان کی وفات کے بعد بھی زندہ ہے۔ امام کے دور میں ہم نوجوان تھے جو اپنی زندگیوں میں اس کی موجودگی سے لطف اندوز ہونے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ ان کے پیغامات ہم تک پہنچتے تھے اور ہم ان پیغامات کو آگے پھیلاتے تھے۔ بعد میں، جب میرے شوہر حوزہ کی تعلیم حاصل کرنے آئے، تو انہوں نے ایران پر مسلط کی گئی جنگ کے دوران ایران میں ہی زندگی گزاری۔ ہم امام سے محبت کرتے تھے، ان کا اثر تمام مقامات پر پہنچا کہ نہ صرف ان کی قوم؛ بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں نے ان سے محبت کی اور ہم سب ان کے شکر گزار ہیں۔ جب وہ انتقال کرگئے تو ہمیں ایک بہت بڑا خلا محسوس ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ ارجنٹائن میں لوگوں نے ان کی رحلت پرماتم کیا لوگ سڑکوں پر نکل آئے یہ وہ چیز تھی جو ہم ارجنٹائنیوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ہم نے ان کی یاد میں مسجد میں مجلسیں منعقد کیں۔
تبلیغ؛ اللہ کی مدد سے اسلام پھیلانے کا فن
ایران میں چند سال گزارنے کے بعد ہم نے ارجنٹائن میں اسلام کی تبلیغ کا مرحلہ شروع کیا۔ میں نہیں جانتی تھی کہ کہاں سے شروع کروں؛ لیکن اللہ تعالی نے میری رہنمائی فرمائی۔ یہاں روز بروز اسلام مخالف تبلیغات میں اضافہ ہورہا تھا، یہودیوں کے مراکز میں سے ایک پر حملے کے بعد ایران پر اس حملے کا الزام لگایا گیا، اس الزام کے بعد آہستہ آہستہ دونوں ممالک کے تعلقات میں کافی سرد مہری آئی اور مسلمانوں کے لیے بھی مشکلات پیدا کر دیں۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں پر ظلم و ستم شروع ہوگیا اور جیسے کہ امام خمینی نے فرمایاتھا، جتنا وہ اسلام اور مسلمانوں پر حملہ کریں گے، اتنا ہی اسلام تیزی سے پھیلے گا اور ایسا ہی ہوا۔ لوگوں نے اسلام، ایران، حزب اللہ اور شیعوں کے بارےمیں تحقیق شروع کردی؛ یہاں تک کہ محققین نے توحید مسجد کا رخ کیا، یونیورسٹی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے طلباء سوال پوچھنے اور انٹرویو کرنے آئے۔ ٹیلی ویژن، ریڈیو اور خبررساں ادارے مسجد پہنچنا شروع ہوگئے اور یوں مسجد پورے ملک میں مشہور ہوگئی۔
یونیورسٹیوں میں اسلام اور اسلامی انقلاب
سماجی علوم کی یونیورسٹیوں میں، اس حقیقت کے باوجود کہ ہولوکاسٹ کو کئی سال گزر چکے ہیں، نسل پرستی اور امتیازی سلوک کے بارے میں گفتگو ہونے لگی۔ 2000 سے 2003 تک، ہم نے فیکلٹی آف سوشیالوجی میں اسلام پر اختیاری سیمینار منعقد کیے، اور ہمیں مذہب، تاریخ، ثقافت اور خواتین سے متعلق تمام موضوعات پر بات کرنے کی اجازت دی گئی؛ تاہم ہمیں مشرق وسطیٰ اور فلسطین کے سیاسی مسائل پر بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ !! مشرق وسطیٰ میں اسلامی انقلاب اور امام خمینی کے بارے میں منفی تبلیغات کا آغاز کیا گیا ان کا مقصد امام اور انقلاب کے بارے میں یہ کہہ کر منفی تاثر پیدا کرنا تھا کہ وہ خطے میں جہاد اسلامی کے نام پر فسادات اور جنگ پھیلا رہے ہیں، جبکہ سب سے بڑی جہاد یہ ہے کہ انسان نفسانی خواہشات سے لڑے۔ مخالفین اس طرح ایک منفی تصویر پیش کرنا چاہتے تھے؛ تاکہ لوگ امام خمینی سے دور رہیں؛ لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔
UMMA (ارجنٹائن کی مسلم خواتین کی یونین)
اسلام اور مسلم خواتین کے خلاف بہت سے تعصبات اور پروپیگنڈے کے پیش نظر، 1995 میں UMMA تنظیم کی بنیاد رکھی۔ UMMA خواتین کی ان تنظیموں میں سے ایک ہے جو دیگرسماجی کاموں کے ساتھ ساتھ، مسلم خواتین کے خلاف تعصبات اور منفی تبلیغات کا جواب دینے اور مسلم خواتین کے حقیقی چہرے کو منظرعام پر لانے اور مسلم خواتین اور ان کے حقوق کا دفاع کرتی ہیں۔ یہ لاطینی امریکہ میں خواتین کا پہلا ادارہ ہے اور مختلف سائنسی اور ثقافتی اداروں کےلیے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی سرگرمیاں بہت ساری اور متنوع ہیں۔ یہ ایک ایسا اسلامی ادارہ ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلم دونوں کو خدمات فراہم کرتا ہے۔ یہ خواتین کے مسائل تک بھی محدود نہیں ہے۔
(IASF)اسلامک انسٹی ٹیوٹ فاؤنڈیشن
ہم نے ملک بھرکےمختلف شہروں کا دورہ کرکے، جہاں ضرورت مند علاقے تھے ان کی نشاندہی کی اور عوام کی خدمت کرنے کا فیصلہ کیا؛ کیونکہ تبلیغ ایک ہنر ہے، تبلیغ، خدمت، دعا، تقریب، مزاحمت، مدد، ثقافتی حقیقت اور علم کا مجموعہ ہے۔ اس سے امام مہدی کے ظہور کےلئے راہ ہموار ہوتی ہے۔ لبیک یا مھدی!
میں ارجنٹائن میں اسلامی انقلاب کے بعد ان تمام سالوں میں ہونے والی تمام سرگرمیوں اور تجربات کے بارے میں بات کرنا چاہتی تھی، لیکن یہ بہت طویل ہوگا اور اس بار، دیگر اوقات کے برعکس، پہلی بار ہے کہ مجھ سے میری زندگی پراسلامی انقلاب کے اثرات کے متعلق پوچھا جارہا ہے۔ میں عموماً اپنے ملک میں اسلامی انقلاب کے اثرات کے بارے میں بات کرتی ہوں۔ اس بار کچھ اور شکل اختیار کرلی ہے۔
آپ کی دعوت کا بہت بہت شکریہ
بشکریہ ایران نوین میگزین